فوٹو: سکرین شاٹ |
کملا ہیرس اور ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان پہلا صدارتی مباحثہ ختم ہوگیا۔
آج ہونے والے صدارتی مباحثے میں دونوں امیدواروں کے نمائندوں کے ’ فتح‘ کے دعوے کیئے۔
امریکہ میں نومبر 2024 میں ہونے والے صدارتی انتخاب کے امیدواروں کملا ہیرس اور ڈونلڈ ٹرمپ کے مابین ہونے والے گرما گرم صدارتی مباحثہ اختتام پذیر ہو گیا۔ اس مکالمےکے دوران دونوں نے ایک دوسرے پر کئی الزامات عائد کیے اور ایک دوسرے کے معیشت، امیگریشن، اسقاط حمل، روس یوکرین جنگ، غزہ جنگ سمیت اہم امور پر دیے گئے بیانات کی تردید بھی کی۔
کملا ہیرس کی انتخابی مہم کی انچارج جین اومیلے نے کہا کہ ’ڈونلڈ ٹرمپ کی باتوں میں کوئی تسلسل نہیں تھا۔ وہ کچھ ناراض اور بوکھلاہٹ کا شکار تھے۔ان کے مطابق ٹرمپ نے 6 جنوری 2021 کو کیپیٹل ہل پر ہونے والے حملے اور تشدد پر کسی قسم کے افسوس کا اظہار نہیں کیا، انھوں نے کئی جھوٹ بولے اور امریکی شہریوں کو درپیش روزمرہ مسائل کے حوالے سے کوئی خاص منصوبہ پیش نہیں کیا۔
ٹرمپ کی انتخابی مہم کےانچارج نے کہا کہ سابق صدر نے ’مباحثے میں شاندار کارکردگی دکھائی۔ انتخابی مہم کے نمائندوں کرس لا سیویٹا اور سوسی وائلز نے کہا کہ ٹرمپ نے ’امریکہ کے حوالے سے ایک دلیرانہ وژن‘ پیش کیا اور کہا کہ وہ اسی طرح اپنی کامیابیوں کے سفر کو جاری رکھیں گے۔ انھوں نے کہا کہ ’کملا ہیرس موجودہ صدر جو بائیڈن کی جابرانہ حکومتی پالیسیوں کی تاریک یاد دلا رہی تھیں، وہی پالیسیاں جنھیں کملا جاری رکھنا چاہتی ہیں۔‘
صدارتی مباحثے کے دوران ٹرمپ بار بار موجودہ صدر جو بائیڈن پر تنقید کرتے نظر آئے جس پر کملا ہیرس نے انھیں ٹوکتے ہوئے کہا کہ ’آپ کے مدمقابل بائیڈن نہیں بلکہ میں ہوں۔‘
روس اور یوکرین جنگ کے حوالے سے کملا ہیرس نے کہا کہ یوکرین کے صدر کے ساتھ ان کا قریبی تعلق ہے۔
کملا ہیرس نےٹرمپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمارے نیٹو اتحادی انتہائی شکر گزار ہیں کہ آپ اب صدر نہیں ہیں ۔ ورنہ پوتن خود اس وقت یوکرین کے دارالحکومت کیئو میں ہوتے اور ان کی نظریں باقی یورپ پر ہوتی۔‘
ٹرمپ نے کملا ہیرس کو تاریخ کی ’بدترین نائب صدر‘ قرار دیا اور دعویٰ کیا کہ وہ حملے سے پہلے یوکرین اور روس کے درمیان مذاکرات کے ذریعے جنگ روکنے میں ناکام رہی ہیں ۔
صدارتی مباحثے کے آخر میں دونوں امیدواروں کے سپورٹرز اور انتخابی مہم چلانے والوں نے اپنے اپنے امیدوار کو مکالمے کا فاتح قرار دیا۔
تحریر کے بارے میں اپنی رائے بھیجیں