تحریر : پروفیسر ڈاکٹرعبدالماجد ندیم
جامعہ پنجاب لاہور
دسواں پارہ 🌹وَاعْلَمُوْا🌹
اس پارے کا خلاصہ بھی ہم دو حصوں میں پڑھیں گے ، (۱) ”سورة الأنفال“ کا بقیہ حصہ، (۲) ” سورة التوبة “ کا ابتدائی حصہ
گزشتہ پارہ ” قال المَلَا“ میں ” سورة الأنفال “ کی مجموعی۷۵آیات میں سے ۳۰ آیات آئی تھیں، لہذا اس کی بقیہ۴۵ آیات دسویں پارہ ”وَاعْلَمُوْا “ میں ہیں ۔ پھر مصحف کی ترتیب سے نویں سورت ” سورة التوبة“ اسی دسویں پارے سے شروع ہوتی ہے اور اس کی آیت نمبر۹۳ تک یہ پارہ مکمل ہو جاتا ہے۔
دسویں پارے کا پہلا حصہ ” سورة الأنفال“ کی آخری ۴۵ آیات (چھے رکوعوں میں ) اور دوسرا حصہ ” سورة التوبة “ کی ابتدائی ۹۳ آیات (چار آیات زائد گیارہ رکوعوں میں ) ہیں ، اس طرح اس پارہ میں مجموعی طور پر آیات کی تعداد ۱۳۸ہے جو کہ چار آیات زائد سترہ رکوعوں میں ہیں۔
🌹پہلا حصہ –سورة الأنفال کی آخری۴۵ آیات (آیت 31-75) 🌹
سورة الأنفال کا وہ حصہ جو دسویں پارے میں ہی اس میں چار نمایاں نکات یہ ہیں :
۱. مال غنیمت کا حکم ۲. غزورہ بدر کے حالات
۳. جنگ سے متعلق ہدایات ۴. ہجرت اور نصرت کی اہمیت و فضائل
۱. مال غنیمت کا حکم
سورة الأنفال کی پہلی آیت میں مال غنیمت کے بارے میں سوال آیا تھا، وہاں اس کا اصول بیان کرنے کے بعد ، اب دسویں پارے کے شروع میں تفصیل ہے جس میں بتایاگیا ہے کہ مال غنیمت کے پانچ حصے ہوں گے پانچواں حصہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، آپ کے قرابت داروں ، یتیموں ، مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے اور باقی چار حصے مجاہدین کے درمیان تقسیم کیے جائیں گے۔
۲. غزورہ بدر کے حالات اور نصرت وذلت کے اسباب
غزوہ بدر کے حوالے سے جو باتیں دسویں پارے کے شروع میں آئی ہیں ان میں چیدہ چیدہ پہلو یہ ہیں :
(۱) جب دونوں لشکر آمنے سامنے ہوئے تو اللہ تبارک وتعالی نے ایسی صورت پیدا فرما دی کہ كفار مسلمانوں کو اور مسلمان کفار کو تعداد میں کم سمجھ رہے تھے ،کیونکہ اللہ نے اس جنگ کا ہونا طے فرما دیا تھا، تو صورت حال دیکھ کر کسی کو بھی دوسرے کی کثرت دیکھ کر راہ فرار اختیار کرنے کی نہ سوجھی ۔
(۲) شیطان مشرکین کی حوصلہ افزائی کے لیے ان کے سامنے ان کے اعمال مزین کر کے پیش کرتا رہا جب کہ دوسری طرف مسلمانوں کی مدد کےلیے آسمان سے فرشتے نازل ہوئے۔
اللہ تعالی نے غزوہ بدر میں مسلمانوں کی نصرت کا تذکرہ کرنے کے بعد اللہ کی نصرت کے حصول کے چار عناصر ذکر فرمائے ہیں:
• میدان جنگ میں ثابت قدمی
• اللہ تعالی کا ذکر کثرت کے ساتھ کرنا
• آپس میں اختلاف اور لڑئی جھگڑے سے بچ کر رہنا
• دشمن سے مقابلے کے وقت ناموافق امور پر صبر کرنا
(۳) قریش غزہ بدر میں ذلیل و خوار ہوئے۔ اس کی وجہ بھی بیان فرمائی کہ اللہ تعالی کا دستور یہ ہے کہ جب کوئی قوم شکر کے بجائے کفر او راطاعت کے بجائے معصیت شروع کر دیتی ہے تو اللہ تعالی بھی اپنا معاملہ بدل دیتا ہے اور اسے نعمت کی جگہ نکبت اور راحت کی جگہ ہیبت میں مبتلا کر دیتا ہے ۔
۳. جنگ سے متعلق ہدایات
غزوہ بدر کے پس منظر میں مسلمانوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ دشمنوں سے مقابلہ کے لیے مادی، عسکری، روحانی تینوں اعتبار سے تیاری مکمل رکھیں ، ظاہر ہے غزوہ بدر میں مادی تیاری مکمل نہ تھی یہ تو اللہ کی خاص نصرت کا نتیجہ تھا کہ مادی اور عسکری اعتبار سے کمزوری اور دونوں لشکروں میں بے پناہ تفاوت کے باوجود اللہ تعالی نے مسلمانوں کو فتح عطا فرمائی۔ لیکن آئندہ کے لیے مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ حالات اور ضروریات کے مطابق بھر پور تیاری کریں تاکہ ان کے اسلحہ اور ساز و سامان کو دیکھ کر دشمن پر رعب طاری ہو جائے اور وہ اسلامی لشکر کے سامنے آنے کی جرأت نہ کرے۔
علاوہ ازیں یہ ہدایت بھی دی گئی کہ اگر کافر صلح کی طرف مائل ہوں تو صلح کر لو۔
۴. ہجرت اور نصرت کی اہمیت اور اس کے فضائل
یہ بتا دیا گیا کہ وہ ایمان والے جنھوں نے ہجرت کی اور اپنی جانوں اورو مال کے ساتھ اللہ کے راستے میں جہاد کیا اور وہ مؤمنین جنھوں نے اپنے مہاجر بھائیوں کو ٹھکانا دیا اور ان کی نصرت کی وہ ایک دوسرے کے ولی ہیں ،ساتھ ہی ہجرت کی اہمیت وفرضیت واضح فرمائی ان لوگوں سے ولایت کی نفی کر کے جنھوں نے ایمان کے باوجود ہجرت اختیار نہیں کی۔اور واضح فرمایا کہ مہاجرین و انصار ہی حقیقی مؤمن ہیں جن کے لیے اللہ کی طرف سے مغفرت اوررزق کریم کا وعدہ ہے ۔
🌹دوسرا حصہ –سورة التّوبة کی ابتدائی ۹۳ آیات (آیت 01-93) 🌹
سورة التّوبة اسے سورة براءة بھی کہا جاتا ہے یہ سورت بھی گزشتہ سورت کی طرح مدنی سورت ہے، اس کا نزول ۹ سنہ ہجری میں ہوا یہ وہ وقت تھا جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رومیوں کی سرکوبی کے لیے تشریف لے جا رہے تھے، اس غزوہ کو غزوہ تبوک کا نام دیا جاتا ہے کیونکہ یہ غزوہ سخت گرمی کے زمانے میں پیش آیا تھا، سفر بھی بہت طویل تھا اور پھل پکے ہوئے تھے جو کہ اہل مدینہ کا اہم ذریعہ معاش تھا ، دوسری طرف مقابلہ ایک ایسی سلطنت سے تھا جو اپنے وقت کی عالمی طاقت تھی ، تو یہ غزوہ اہل ایمان کے صدق و اخلاص کا بڑا امتحان تھا ، لہذا اس کو مؤمنوں اور منافقوں کے درمیان ایک امتیاز کا موقع گردانا گیا ، اس کا وہ حصہ جو دسویں پارے میں ہے ، اس میں تین نکات نمایاں ہیں:
۱.مشرکین سے براءت اور ان کے خلاف جہاد کے احکام
۲. اہل كتاب کے خبثِ باطن کی وضاحت اور ان کے خلاف جہاد کی اجازت
۳. مسلمانوں اور منافقوں کے درمیان واضح تفریق قائم کرنا
۱. مشرکین سے براءت اور ان کے خلاف جہاد کے احکام
سورت کی تمہید میں ان معاہدات سے براءت کا اعلان کیا گیا ہے جو مسلمانوں نے مشرکین کے ساتھ کیے تھے، ان کے لیے انتہائی مدت چار ماہ مقرر کر دی گئی، اس طرح مشرکین کو حج بیت اللہ تعالی سے بھی روک دیا گیا ، کیونکہ یہ لوگ کئی بار عہد شکنی کے مرتکب ہو چکے تھے اور اسلام کے خلاف مستقل سازشوں میں رہتے تھے یہود اور ہر دشمن قوت کے ساتھ گٹھ جوڑ کرتے آ رہے تھے۔
*۲. اہل کتاب کے خبثِ باطن کی وضاحت اور ان کے خلاف جہاد کی وضاحت *
اسی حصے میں اہل کتاب کے ساتھ بھی قتال کی اجازت دی گئی ہے کہ مکرو فریب، عہد شکنی، منافقت اور جھوٹ ان کی فطرت میں رچ بس چکا تھا۔انھوں نے بھی اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا تھا، ان کی باطنی خباثتوں کو واضح کیا گیا ہے اور ان کے خلاف قتال کی اجازت دی گئی ہے ۔
۳. مسلمانوں اور منافقوں کے درمیان امتیاز
منافقوں اور مسلمانوں میں امتیاز کرنے والی بنیادی چیز کا ظاہری سبب غزوہ تبوک بنا، جہاد اور وہ بھی وقت کی عالمی طاقت کے خلاف اور ایسی صورت حال میں کہ شدید گرمی اور فقر و فاقہ کا بسیرا تھا اور اہل مدینہ جن کی معاشیات زراعت پر تھی ، درختوں پر پھل پک چکے تھے، ان کو چھوڑ کر جانا ممکن نہ تھا سوائے ان لوگوں کے جنھوں نے صرف اور صرف اللہ اور رسول کے حکم پر لبیک کہنا سیکھا ہو اور اپنا جان و تن سب کچھ دین کے لیے قربان کرنے کے لیے ہر وقت آمادہ رہتے ہوں ، اس مشکل موقع پر سوائے چند کے سب مسلمان چلے گئے، جب کہ منافقین نے بہانے تراشے ،اور ان سے ایسی حرکتیں اور بہانے سامنے آئے جو انتہائی مضحکہ خیز تھے ۔ بہر حال اس پارے کے آخر تک منافقین کی مذمت ہے ، جو قدرت کے باوجود میدان جہاد میں نہ اترے ، اللہ تعالی نے ان منافقین کی علامات اور بد باطنیوں کو اس انداز میں بیان کیا ہے کہ منافقین سب کے سامنے ذلیل اور رسوا ہو کر رہ گئے۔
تحریر کے بارے میں اپنی رائے بھیجیں