تحریر:پروفیسر ڈاکٹر عبد الماجد ندیم
جامعہ پنجاب لاہور
🌹دوسرا پارہ🌹
یہ پارہ “سیقول” کے نام سے مشہور ہے ، اس میں سوائے سورة البقرة کےکوئی اور سورت نہیں ہے۔
سورة البقرة کی آیت نمبر( ۱۴۲ )سےشروع ہو کر ( ۲۵۲ )تک مکمل ہوتا ہے ، اس طرح یہ پارہ سورة البقرة کی (۱۱۱) آیات پر مشتمل ہے ۔
اس پارے میں پانچ مضامین خصوصی طور پر سامنے آتے ہیں:
۱: تحویل قبلہ، ۲. امت مسلمہ کا مقام ۳. آیت برّ اور ابوابِ برّ، ۴: قصہ طاعون، ۵: قصہ طالوت
۱: تحویل قبلہ
دوسرے پارے کی ابتدا تحویل قبلہ یعنی قبلے کی تبدیلی کے ذکر سے ہوتی ہے ۔ مدینہ منوّرہ کی طرف ہجرت کرنے کے بعد تقریبًا سولہ ماہ تک مسلمانوں کا قبلہ بیت المقدس رہا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام مسلمان بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے رہے ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دلی آرزو یہ تھی کہ خانہ کعبہ ،جو کہ اس روئے زمین پر اللہ تعالی کا پہلا گھر ہے ، جسے اللہ کے حکم سے حضرت ابراہیم علیہ السلام وحضرت اسماعیل علیہ السلام نے تعمیر فرمایا تھا، اس کو قبلہ قرار دیا جائے ۔ بالآخر اللہ تبارک وتعالی نے قبلے کی تبدیلی کا حکم فرمایا اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی امت کو حکم دے دیا کہ وہ جہاں کہیں بھی ہوں مسجد حرام کو اپنا قبلہ بنائیں ۔اس ضمن میں نادان لوگوں کے اعتراضات ان کی حقیقت اور قبلہ کی تبدیلی کی کئی ایک حکمتوں میں سے چند حکمتیں بھی بیان فرمائی ہیں ۔
۲:امت مسلمہ کا مقام اور اس پر اللہ تعالی کا احسان عظیم
قبلے کی اس تبدیلی کے اعلان کے ساتھ ہی اُمت مسلمہ کو متنبہ کر دیا گیا کہ اب تم امت وسط ہو ”شہادت علی النّاس“ کے منصب پر فائز ہو، یہ منصب جہاں ایک بہت بڑا اعزاز ہے وہاں ایک بھاری ذمہ داری اور نازک فریضہ بھی ہے ، جس کے لیے اللہ کے ہاں جواب دہی ہے ۔
اور یہ کہ امت مسلمہ کو جو مقام ملا ہے وہ اللہ کے انھی انعامات و احسانات کا تسلسل ہے جو ہدایت و تزکیہ کے لیے اللہ تعالی نے اس امّت پر نبی مکرّم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کی صورت میں فرمایا ہے۔
لہذا اب اس امت کو چاہیے کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات پر عمل پیرا رہے اور نیکیوں کے لیے کمر بستہ ہو جائے ۔
۳: نیکی کی حقیقت اور اس کی کچھ تفصیلات و احکام
”لیس البِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْھَکمْ ..............(البقرة : ۱۷۷) یہ آیت بِرّ کہلاتی ہے ، اس میں نیکی کی حقیقت بتائی گئی ہے کہ وہ صرف چند رسوم کا نام نہیں ہے جنھیں کسی خاص مقام یا جہت میں ادا کر لیا جائے بلکہ اس دین اور اس کے تصور نیکی کا تعلق زندگی کے ہر شعبے سے ہے اس آیت میں تمام احکامات عقائد، عبادات ، معاملات، معاشرت اور اخلاق اجمالی طور پر مذکور ہیں، اسی طرح اس آیت البرّکے بعد اورکچھ پہلے ”ابواب البرّ“ یعنی نیکی کےکچھ رستوں اور ان سے متعلقہ احکام کی تفصیل ہے جن میں سے کچھ اوامر ہیں اورکچھ نواہی ہیں ، جیسے :
۱.صفا و مروہ کی سعی اور حج و عمرہ کے چند مسائل ، ۲. کھانے پینے میں حلال وطیب کھانے کی اجازت اور حرام سے بچنے کا حکم ، پھر کچھ حرام چیزوں کا بھی ذکر، ۳. قصاص کی اہمیت، ۴. وصیت کی ضرورت اور ورثا کے حقوق کا خیال ، ۵. روزے کی فرضیت اور اس کا مقصد ، ۶. رمضان کی فضیلت اور کچھ احکام ، ۷. نا جائز کمائی کی حرمت ، ۸. قمری تاریخ کا بیان ، ۹. جہاد و قتال فی سبیل اللہ کی اہمیت اور اس سے متعلق کچھ احکام و تفصیلات، ۱۱. انفاق فی سبیل اللہ کی اہمیت اور اس سے متعلق کچھ مسائل، ۱۲. مرتد کے بارے میں حکم ۱۳. شراب اور جوا کی حقیقت، ۱۴. رشتہ ازدواج کن سے قائم کیا جا سکتاہے اور کن سے نہیں ، ۱۵. مردو زن کےباہمی تعلق اور جماع کے متعلق کچھ مسائل ، اس کے علاوہ ۱۶. ایلاء ( بیوی کے قریب نہ جانے کی قسم)، ۱۷. طلاق، ۱۸. عدت، ۱۹. رضاعت، ۲۰. مہر، ۲۱. طلاق کے بعد پہلے خاوند کے پاس واپسی وغیرہ مختلف تفصیلات ہیں ۔
۴۔ ایک قوم کا قصہ جو طاعون کی وبا پھیلنے کے بعد موت کے خوف سے بھاگ کھڑی ہوئی
اللہ تبارک وتعالی ہر چیز پر مکمل قدرت رکھتا ہے کوئی شخص اللہ کی تقدیر سے نہیں بھاگ سکتا لہذا جان اور مال کی فکر کے بجائے اللہ کے احکام کو مد نظر رکھ کر زندگی گزارنی چاہیے اس سلسلے میں گزشتہ اقوام میں کچھ لوگوں کا تذکرہ جن پر طاعون کی بیماری آئی ، وہ موت کے خوف سے دوسرے شہر چلے گئے، اللہ تعالی نے (دو فرشتوں کو بھیج کر) انھیں موت دی (تاکہ انسانوں کو پتا چل جائے کہ کوئی موت سے بھاگ نہیں سکتا) کچھ عرصے بعد اللہ نے (ایک نبی کے دعا مانگنے پر) انھیں دوبارہ زندگی دے دی۔
۵: قصہ طالوت
موت و زندگی سب اللہ کے ہاتھ میں ہے اور جنگوں میں فتح و شکست کا بھی اختیار اللہ کے ہاتھ میں ہے اللہ کے ہاں وہی لوگ مقبول ہیں جو اللہ اور رسول کے تابع فرمان ہیں اس سلسلے میں حضرت داؤد علیہ السلام کے زمانے میں جناب طالوت کی سرکردگی میں لڑنے والے لشکر کا واقعہ اور باوجود کم تعداد میں ہونے کے انھوں نے اللہ تعالی کے حکم سے جالوت کے لشکر کو شكست دے دی، اور خود جالوت (دشمن فوج کا سربراہ) حضرت داؤد علیہ السلام کے ہاتھوں مارا گیا ۔
اور آخر میں یہ واضح فرمایا کہ ماضی کے وہ واقعات جو گم ہو گئے تھے ان کو حقیقت واقعہ کے ساتھ پوری تفصیل سے بیان کرنا بھی اس بات کی دلیل ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے سچے رسول ہیں ۔لہذا فرمایا :
”یہ اللہ تعالی کی آیتیں ہیں جو ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ٹھیک ٹھیک پڑھ کر سناتے ہیں اور بلا شبہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے رسولوں میں سے ہیں ۔(آیت ۲۵۲)“
ضروری معلومات اور رہنمائی حاصل ہوئی
جواب دیںحذف کریں