تحریر: پروفیسر ڈاکٹر عبدالماجد ندیم
جامعہ پنجاب لاہور
ساتواں پارہ، مضامین کا خلاصہ
*ساتواں پارہ 🌹وَاِذَا سَمِعُوْا🌹*
اس پارے کو بھی ہم دو حصوں میں دیکھیں گے ، (۱) ”سورة المائدة“ کا بقیہ حصہ، (۲) ” سورة الأنعام “ کا ابتدائی حصہ
گزشتہ پارہ ”لا یحبّ اللہ“ میں ”سورة المائدة “ کی مجموعی آیات ۱۲۰ میں سے ۸۲ آیات گزر چکی ہیں ، لہذا اس کی بقیہ ۳۸ آیات ساتویں پارہ ”وإذا سمعوا“ میں ہیں ۔ پھر مصحف کی ترتیب سے چھٹی سورت ” سورة الأنعام “ بھی اسی ساتویں پارے سے شروع ہوتی ہے اور اس کی آیت نمبر ۱۱۰ تک یہ پارہ مکمل ہو جاتا ہے۔
توساتواں پارہ دو سورتوں میں تقسیم ہے پہلا حصہ ” سورة المائدة “ کی آخری ۳۸ آیات (چھے رکوعوں میں ) اور دوسرا حصہ ” سورة الأنعام “ کی پہلی ۱۱۰ آیات (تیرہ رکوعوں میں) ہیں ، اس طرح اس پارہ میں مجموعی طور پر آیات کی تعداد ۱۴۸ ہے جو کہ انیس رکوعوں میں ہیں۔
*🌹پہلا حصہ –سورة المائدة کی آخری ۳۸ آیات (آیت 83- 120) 🌹*
اس حصے میں پانچ نمایاں نکات ہمارے سامنے آتے ہیں :
۱. گزشتہ سورت کے آخری مضمون نصاری کی مذمت کے بعد ان کے ایک گروہ کی تعریف
۲. حلال و حرام کے چند مسائل ۳. قَسموں کی حفاظت کا حکم اور ان کے کفارے کا بیان
۴. وصیت کا حکم اور اس حوالے سے رہنمائی
۵. قیامت کے دن کی منظر کشی اوراس ضمن میں حضرت عیسی علیہ السلام کا خصوصی تذکرہ
*۱. گزشتہ سورت کے آخری مضمون نصاری کی مذمت کے بعد ان کے ایک گروہ کی تعریف*
گزشتہ پارے کے اختتام میں نصاری کے ایک مخصوص گروہ کا ذکر تھا جو حضرت عیسی علیہ السلام کی تعلیمات کا پابند تھا اور ان میں نرمی پائی جاتی تھی ، لہذا اس پارے کے شروع میں ملک حبشہ کے بعض عیسائی راہبوں کے ایک واقعے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ نصاری کا ایک گروہ وہ بھی ہے جو منصف مزاج اور معتدل ہے کہ جب ان کے سامنے قرآن پاک کی تلاوت کی جاتی ہے تو ان کی آنکھیں آنسوؤں سے تر ہو جاتی ہیں اور وہ ایمان قبول کر لیتے ہیں ۔
*۲. حلال و حرام کے چند مسائل اور شراب و جوا کا حکم*
حلال وحرام کے تعین کا تمام اختیار اللہ کے پاس ہے لہذا کسی حلال چیز کو اپنے لیے حرام ٹھہرا لینے سے مؤمنین کو منع کیا گیا اور اسے حد سے تجاوز قرار دیا گیا ۔
اس حوالے سے خاص طور پر ان چار قسم کے جانور وں (۱) بحیرہ، (۲) سائبہ، (۳) وصیلہ، اور (۴) حام ، کانا م لیا گیا جن کو مشرکین نے حرام کر رکھا تھا۔
اس کے علاوہ شراب ، جوا، بت اور پانسے کے تیروں کو نا جائز قرار دیا گیا ،اسی طرح حالتِ احرام میں تری کے شکار کی اجازت دی گئی جب کہ خشکی کے جانور کے شکار سے روک دیا گیا ۔
*۳. قَسموں کی حفاظت کا حکم اور ان کے کفارے کا بیان*
کے حوالے سے رہنمائی کی گئی کہ جھوٹی قسموں پر کفارہ ہے جب کہ لغو قسموں پر مؤاخذہ نہیں،
*۴. وصیت کا حکم اور اس کے حوالے سے ہدایات *
وصیت کا حکم آیا ہے کہ جب موت کی کیفیت محسوس کرو تو وصیت کرو اور پھر اس حوالے سے مختلف احوال میں کیا طریقہ کار اختیار کیا جائے ، ہدایت آئی ہیں ۔
*۵. قیامت کے دن کی منظر کشی اور اس ضمن میں حضرت عیسی علیہ السلام کا خصوصی تذکرہ*
حلال و حرام کےان مسائل کے بعد قیامت کے دن کی منظر کشی کی گئی ہے ۔جب تمام رسولوں کو جمع کر کے ان سے سوال کیا جائے گا کہ جب تم نے میرا پیغام میرے بندوں تک پہنچایا تو تمھیں کیا جواب دیا گیا ۔
تمام انبیا کے ساتھ سوال و جواب کے تناظر میں خصوصی طور پر حضرت مسیح علیہ السلام کا تفصیلی تذکرہ کیا گیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالی قیامت کے دن سیدنا مسیح علیہ السلام کو اپنے احسانات یاد دلائے گا ، انھیں احسانات میں مائدة والا قصہ بھی ہے جس کی بنیاد پر اس سورت کا نام سورة المائدة ہے۔”مائدة“ کا معنی ہے ایسا دستر خوان جس میں کھانے پینے کی مختلف نعمتیں سجی ہوئی ہوں ۔ یہ قصہ کچھ یوں بیان ہوا ہے کہ جب حواریوں نے حضرت عیسی علیہ السلام سے درخواست کی تھی کہ آپ اللہ سے درخواست کریں کہ وہ ہمارے لیے آسمان سے ”مائدة “ نازل فرمائے ۔
اپنے چند احسانات گنوانے کے بعد اللہ تعالی سوال کرے گا : اے عیسی، مریم کے بیٹے! کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو اللہ کے سوا معبود ٹھہراؤ؟
حضرت عیسی علیہ السلام اللہ کے حضور میں عرض کریں گے کہ میں نے تو اُن سے اس کے علاوہ کچھ نہیں کہا تھا جس کا آپ نے حکم دیا تھا، کہ ایک اللہ کی عبادت کرو جو میرا بھی رب ہے اور تمھارا بھی ، اس کے علاوہ آپ ربّ غفور ور حیم کے حضور عرض کریں گے کہ اگر انھوں نے میرے حکم کی نافرمانی کی ہے تو آپ کو اختیار ہے چاہیں تو انھیں سزا دیں اور چاہیں تو معاف کر دیں آپ توکامل و مکمل حکمت والے ہیں “
قیامت کے دن کی منظر کشی اور اللہ کی ہمہ گیر سلطنت کے تذکرہ پر سورة المائدة اختتام پذیر ہو جاتی ہے۔
*🌹دوسرا حصہ – سورة الأنعام کی ابتدائی ۱۱۰ آیات (آیت 01 – 110) 🌹*
سورة الأنعام کی مجموعی ۱۶۵ آیات میں سے جو ابتدائی ۱۱۰ آیات اس پارے میں ہیں، کیونکہ سورة الأنعام مکی سورت ہے اور مکی سورتوں میں عام طور پر تین بنیادی عقائد ملتے ہیں ہمارے زیر نظر حصے میں بھی ان تین بنیادی عقائد سمیت پانچ نکات نمایاں ہیں :
۱. توحید ۲. وحی و نبوّت ۳. آخرت
۴. حضرت ابراہیم علیہ السلام کا خصوصی حوالہ ۵. حقیقت کے طلب گار اور باطل پر اڑنے والوں میں فرق
اس سورت کی ابتدا ا اللہ کی حمد و ثنا اور عظمت و توحید کے بیان سے ہوتی ہے پھر رسالت اور بعث و جزا کا ذکر ہے ۔
*۱. توحید*
اس حصے میں اللہ تعالی کی توحید اور قدرت و عظمت کے دلائل کو ایسے اصولوں کی صورت میں پیش کیا گیا ہے کہ ان کا انکار فطرت سلیمہ پر قائم انسان کر ہی نہیں سكتا۔
ایسے دعوے پیش کیے گئے جنھیں مشرکین بھی تسلیم کرتے تھے اور یہ دعوے اپنے ثبوت کے دلائل یا زیادہ مغز ماری کے بھی متقاضی نہیں بلکہ صاحب نظر انسان کائنات پر ایک نظر ڈالتا ہے تو وہ اللہ کے وجود، اس کی عظمت و کبریائی اور غلبے اور قدت کا اعتراف کیے بغیر نہیں رہتا۔
اس کے علاوہ مشرکین مکہ کو سوال و جواب کی شکل میں ان مسکت دلائل سے لا جواب کیا گیا ہے ۔
*۲. وحی و نبوّت*
وحی و نبوت کو تسلیم نہ کرنے میں مشرکین معجزات کی شکل میں جو مطالبے رکھ رہے تھے اس کے جواب میں بھی خالق کائنات کے وجود ، اس کے علم، قدرت اور حكمت کے کمال پر دلائل ذکر کیے گئے اور ان دلائل سے اس طرف متوجہ کیا گیا کہ مقصود اصلی اللہ کی ذات و صفات اور اس کے افعال کی معرفت ہے ۔ لیکن مکہ کے کفار ان دلائل میں تو غورو فکر نہیں کرتے تھے ۔ البتہ مختلف قسم کے معجزات کا مطالبہ کرتے رہتے تھے کہ اگر ہمیں فلاں معجزہ دکھا دیا جائے تو ہم ایمان قبول کر لیں گے حالانکہ ان کی یہ باتیں زبانی جمع خرچ اور دفع الوقتی کے سوا کچھ نہ تھیں۔
اس کے علاوہ اس حصے میں اٹھارہ انبیا علیھم السلام :
(۱)حضرت ابراہیم علیہ السلام ، (۲)حضرت اسحاق علیہ السلام ، (۳)حضرت یعقوب علیہ السلام ، (۴)حضرت نوح علیہ السلام ، (۵)حضرت داؤد علیہ السلام ، (۶)حضرت سلیمان علیہ السلام ، (۷)حضرت ایوب علیہ السلام ، (۸)حضرت یوسف علیہ السلام ، (۹)حضرت موسٰی علیہ السلام ، (۱۰)حضرت ہارون علیہ السلام ، (۱۱)حضرت زکریا علیہ السلام ، (۱۲)حضرت یحیٰ علیہ السلام ، (۱۳)حضرت عیسیٰ علیہ السلام ، (۱۴)حضرت الیاس علیہ السلام ، (۱۵)حضرت اسماعیل علیہ السلام ، (۱۶)حضرت یسع علیہ السلام ، (۱۷)حضرت یونس علیہ السلام ، اور (۱۸)حضرت لوط۔
کے اسمائے گرامی ذکر ہوئے ہیں اور ساتھ ہی یہ واضح کیا گیا کہ ان سب کو وحی سے مشرف کیا گیا ، اور ان کے علاوہ بھی بے شمار انبیا علیھم السلام دنیا میں تشریف لائے،ان کے نام قرآن میں مذکور نہیں ۔اس پورے بیان سے نبی پاک صلی اللہ کو تسلّی دی گئی کہ نہ ماننے والے ہر دور میں اسی انداز کے ڈھیٹ پن کو اختیار کرتے آ رہے ہیں۔
*۳. قیامت*
قیامت کے ضمن میں جو نکات خاص طور پر بیان ہوئے ہیں وہ یہ ہیں کہ:
- قیامت کے روز اللہ تعالی تمام انسانوں کو جمع کرے گا ۔
- روز قیامت کسی انسان سے عذاب کا ٹلنا اس پر اللہ کی بڑی مہربانی ہو گی۔
- روزِ قیامت مشرکین سے مطالبہ کیا جائے گا کہ کہاں ہیں تمھارے شرکا؟
- اس روز جہنمی تمنّا کریں گے کہ کاش انھیں د نیا میں لوٹا دیا جائے تاکہ وہ اللہ رب العزت کی آیات کو نہ جھٹلائیں اور ایمان والے بن جائیں۔
*۴. عقائد کے تینوں مضامین کے ضمن میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا خصوصی حوالہ*
یہ تینوں مضامین توحید ، رسالت اور قیامت زیر نظر حصہ میں ادل بدل کر مختلف انداز اور اسلوب سے چلتے جاتے ہیں یہاں تک کہ بات ملت توحید کے مقتدی أبو الأنبیا حضرت ابراہیم علیہ السلام تک جا پہنچتی ہے ، جو شرک میں ڈوبی ہوئی دنیا میں روشن مینار تھے۔ انھوں نے جب سورج، چاند، ستاروں اور ہاتھوں سے بنائے گئے بتوں کو معبود تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور ربّ واحد کی کبریائی پر ایمان کا اعلان کیا تو انھیں سب سے پہلے اپنے والد ہی کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ۔ مگر انھوں نے اس مخالفت کی کوئی پروا ہ نہ کی اور توحید پر نہ صرف خود قائم رہے بلکہ اس کی طرف دعوت کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔
*۵. ایمانیات کے ضمن میں حقیقت کے طلب گار اور باطل پر اڑے رہنے والوں کی نظر میں فرق*
اس سورت میں حقیقت کے طلب گار اور باطل پر اڑے رہنے والوں کے درمیان نظر کا فرق بھی سامنے آتا ہے کہ صاحب طلب معجزہ کا مطالبہ نہیں کرتا ۔ وہ جدھر نظر اٹھاتا ہے اللہ کے وجود اور قدرت کا مشاہدہ کرتا ہے جب کہ انھیں آیات قدرت کی طرف کافر بھی نظر ڈالتا ہے مگر وہ اپنی فطرت مسخ کرنے کی وجہ سے مظاہر قدرت کے مشاہدہ سے ربّ علیم و قدیر کی ذات کی پہچان نہیں کر پاتا، اسے پوری کائنات مادی اسباب میں جکڑی ہوئی دکھائی دیتی ہے ۔ جب کہ مؤمن کو ہر چیز ہر مرحلے میں قدرت کی کارفرمائی نظر آتی ہے ۔اور وہ بے ساختہ پکار اٹھتا ہے : ”سبحٰن اللہ“
تحریر کے بارے میں اپنی رائے بھیجیں